ملاقات کا ایک موقع: میرے لیے دنیا کے دروازے کھول دیے گئے اور مجھے کمانے کا ایک موقع دیا

ہندوستان کی بہت سی لڑکیاں اور عورتیں گھروں میں پابند رہتی ہیں جہاں وہ باہر کی اذیتوں اور حراساں کیے جانے سے محفوظ رہتی ہیں۔ لیکن زیادہ سے زیادہ لڑکیاں اس میں تبدیلی لانے کی جرات پیدا کر رہی ہیں۔ یہ ایک لڑکی کی کہانی ہے۔

میرا نام مینو ہے اور میں انڈیا کے شہر دہلی میں اپنی ماں اور پانچ بہن بھائیوں کے ساتھ رہتی ہوں۔ جب میں پانچ سال کی تھی تو میرے والد وفات پا گئے، چنانچہ میری والدہ نے اپنی محدود تنخواہ پر ہماری پرورش کی۔

میری ماں پڑھی لکھی نہیں تھی ان کے والدین نے پندرہ سال کی عمر میں ان اس کی شادی کر دی تھی۔ وہ ہمیشہ کہتی کہ اگر وہ پڑھی لکھی ہوتیں تو وہ ہماری زندگیوں کو بہتر بنانے کے قابل ہوتیں چنانچہ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں ضرور پڑھنا لکھنا ہوگا۔ انھوں نے سخت محنت کر کے ہمیں پڑھنا لکھنا سکھایا تاکہ ہماری زندگیاں ان کی زندگی سے بہتر ہوں۔

میرے چچا کا خیال تھا کہ میری ماں اپنا وقت ضائع کر رہی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ہماری شادیاں کروا دی جائیں تاکہ ہم کسی اورکی ذمہ داری بن جائیں۔ لیکن میں نے اپنی ماں کی بات مانی اور میں اپنی کچی آبادی کے قریب ایک ایسے سکول میں جاتی ہوں، جہاں بہت سے بچے پڑھتے ہیں۔

میری ماں مجھےکہتیں کہ لڑکوں کی توجہ حاصل نہ کروں وہ کہتیں کہ اگر لڑکے مجھ میں دلچسپی لیں تو یہ خطرناک ہوگا۔ اگر لوگ ایسی بات کریں(چاہے جھوٹ ہی بولیں)کہ لڑکے مجھ میں دلچسپی لے رہے ہیں تو یہ ہمارے خاندان کے لئے شرم کی بات ہوگی –اور مجھے تشدد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، میں نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے ہوتے ہوئے دیکھا۔

سکول سے گریجویشن کرنے کے بعد میں اپنے گھر پر ہی رہتی میں اپنی کچی آبادی میں ایسے کئی لڑکوں کو جانتی تھی جو کہتے کہ وہ میری راہ دیکھتے ہیں، لیکن مجھے لڑکوں لڑکوں کے پاس جانے کا سوچ کر بھی ڈر لگتا۔ میں اپنے گھر میں ہی خود کو محفوظ سمجھتی تھی، جہاں میں صرف خواب دیکھ سکتی تھی۔

میں ملازمت کی تلاش کے لئے بھی گھر سے باہر نہیں نکل سکتی۔ میں ناامید اور ناکارہ ہو کر رہ گئی، مجھے ڈر ہوا کہ میرے خواب کبھی شرمندہ تعمیر نہیں ہوسکیں گے۔

ایک دن میری ماں نے مجھے ایک چھوٹے سے کام کے لئے گھر سے باہر بھیجا۔ راستے میں چلتے ہوئے میری ملاقات ایک عورت سے ہوئی۔ اس نے مجھے کمپیوٹر کلاس میں شرکت کی دعوت دی جس میں صرف لڑکیاں تھیں۔ میں خوفزدہ تھی کیونکہ میں نے کبھی کمپیوٹر استعمال نہیں کیا تھا۔ میں اس بات سے بھی خوفزدہ تھی کہ میں کمپیوٹر سنٹر اکیلے کیسے جاؤں گی، میری ماں نے کہا کسی سہیلی کے ساتھ چلی جایا کرو۔ انہوں نے کہا: "مینو! یہ بہادر بننے کا وقت ہے "۔

میں نے کمپیوٹر، لڑکیوں کے حقوق اور معاشرے میں اکھٹے کام کرنے کے بارے میں سیکھا، جس سے میں بہتر اور مضبوط ہو گئی۔ جب میری تربیت مکمل ہوئی تو میں فیمینسٹ اپروچ ٹو ٹیکنالوجی سینٹر میں دوسری لڑکیوں کو رضاکارانہ پڑھانے لگی۔ میں نے ٹیلی مارکیٹنگ میں ملازمت کے لئے تیاری شروع کی اور ایک روز میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب میں نے گھر آکر اپنے خاندان کو بتایا کہ مجھے ملازمت مل گئی!

میری ماں نے مجھے بتایا کہ وہ میرے والد کے چہرے پر وہ تاثر دیکھنے دیکھنے کے لیے بے تاب ہے جب اسے معلوم ہوگا کہ ان کی بیٹی نے خاندان کے لئے پیسے کما کر لانے شروع کر دیئے ہیں۔ میں نے بہت سے پیسے کمائے جو بہن کی شادی کے لئے بھی کافی تھے۔

میں نے سیکھا کہ میں بھی کسی سے کم نہیں ہوں۔ مجھے ڈرنے اور لڑکوں کو دیکھ کر کناروں میں چھپنے کی ضرورت نہیں۔ مجھے اپنے لئے اور دہلی کی دوسری لڑکیوں کے لئے کھڑے ہونے کا حوصلہ ملا۔ ہماری مشترکہ آواز ہے کہ تبدیلی لانی ہے، اور جب تک دہلی لڑکیوں کے لئے محفوظ شہر نہیں بن جاتا ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا۔

Share your feedback