مجھے دوست اور امید ملی
پچھلے سالوں میں، صومالیہ، سوڈان، ایتھوپیا اور جمہوریہ کانگو کے مہاجرین اپنے ممالک میں ہونے والے تشدد سے فرار ہو کر کینیا پہنچے۔ یہ ایک لڑکی کی کہانی ہے۔
میرا نام فاطمہ ہے، اور میں صومالیہ کے ایک دور دراز گاؤں میں پیدا ہوئی، وقت اور مسافت دونوں اعتبار سے کافی دوری پر واقع ہے، لیکن مجھے ہر ایک بات اچھی طرح یاد ہے۔
میں ابھی بچی ہی تھی جب میری ماں مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ میری سوتیلی ماں میری ماں سے نفرت کرتی تھی، لہٰذا اس نے مجھے بھی ایک باہر والے شخص اور بوجھ کی طرح ہی سمجھا۔ وہ ہمیشہ مجھے مارنے اور میری بے عزتی کرنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ لیتی تھی۔
اس نے مجھے کبھی بھی کھیلنے یا سکول جانے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے بجائے وہ مجھے باہر بکریوں کے ساتھ بھیج دیتی اور جب تک اندھیرا نہ ہو جاتا وہ مجھے واپس نہ آنے دیتی۔
میرا باپ بوڑھا تھا اور اسے اس سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ میں تنہائی اور اداسی میں پلتی بڑھتی رہی۔ ایک دن میں نے اپنے بڑے بھائی کی منت کی کہ وہ مجھے اپنے ساتھ شہر لے جائے۔ اس نے میری بات مان لی مجھے اتنی خوشی ہوئی جتنی زندگی میں کبھی نہیں ہوئی تھی۔
لیکن ایک روز جب میں مارکیٹ میں تھی، میں نے ایک دھماکا سنا۔ اس وقت جب سب کے سب لوگ دھماکے کی جگہ سے دور بھاگ رہے تھے، میں دھماکے کی جگہ کی طرف بھاگ رہی تھی۔ میں ہمیشہ سے ایک متجسس قسم کی لڑکی تھی اس لیے میں اس طرف دوڑے جا رہی تھی۔ اچانک میں پیٹھ کے بل گر پڑی اور میرا گھریلو سامان میرے اوپر سے گزر کے پیچھے جا گرا۔ پھر ہر چیز مجھے اندھیر لگنے لگی۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں ہسپتال میں تھی اور بہت بری خبر تھی: مجھے بازو پر گولی لگی تھی اور میرا بھائی لا پتہ تھا۔
میری پڑوسن نے مجھ سے کہا کہ میں اس کے ساتھ کینیا بھاگ جاؤں جہاں مجھے اچھا ہسپتال مل سکتا ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ یہ میری زندگی کا بدترین فیصلہ تھا۔ مجھے اپنے اس فیصلے سے سخت نفرت ہے۔ میں آج دن تک نہیں جانتی کہ میرا بھائی کہاں ہے۔ مجھے اس کا انتظار کرنا چاہئے تھا۔ دنیا میں صرف وہی ایک شخص تھا جو مجھ سے محبت کرتا تھا۔
میرا زخم بے حد درد کر رہا تھا اور میں اس بات سے خوفزدہ تھی کہ کینیا میں میرے خاندان کا کوئی فرد نہیں تھا۔ میں کس قدر اکیلی ہوگئی تھی۔ ایک خاندان نے مجھے لے لیا، لیکن انہوں نے کہا کہ میں کام سے بچنے کے لیے اپنے زخم کا بہانہ بناتی ہوں۔ ایک سال بعد انہوں نے مجھے گھر سے نکال دیا۔
ایک بوڑھی عورت نے ہسپتال میں ایک ڈاکٹر کو دکھانے میں میری مدد کی۔ جب میرے پاس رہنے کا ٹھکانہ نہ رہا تو اس نے مجھے ایک گروپ کے بارے میں بتایا جس کا نام ہیشیما کینیا تھا کہ وہ میری مدد کر سکتا ہے جب میں نے انہیں اپنی آپ بیتی سنائی تو انہوں نے کھلے دل کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ کینیا پہنچنے کے بعد پہلی مرتبہ مجھ میں کوئی امید بندھی۔ اس محفوظ گھر میں میری ملاقات ایسی دوسری لڑکیوں سے ہوئی جو اپنے ملک سے جنگ کی وجہ سے فرار ہو کر آئی تھیں، یہاں ان کے خاندان کے لوگ نہیں تھے، ان لڑکیوں کو بھی انہی مشکلات کا سامنا تھا جو مجھے درپیش تھیں۔
انہوں نے میرے بازو کو بچانے کے لیے ضروری سرجری کا انتطام کیا اور پھر انہوں نے مجھے پڑھنا اور لکھنا سکھایا۔ مجھے اپنے نام کا پہلا، درمیانہ اور آخری حصہ لکھنا سیکھنے میں چھ ہفتے لگے۔ اب میں صحافتی فوٹوگرافی کی تربیت حاصل کر رہی ہوں۔ دنیا کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ہم پناہ گزیں لڑکیوں کے ساتھ کیا کچھ ہو رہا ہے۔ صرف اس وجہ سے کہ میرا بازو کام نہیں کرتا میں اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے سے باز نہیں رہ سکتی۔
میری آنکھیں بند تھیں، لیکن اب میں محسوس کر رہی ہوں کے لڑکیوں کے سامنے کئی امکانات ہیں جن کا میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اور میں چاہتی ہوں کہ وہ تمام لڑکیاں جو صرف سوتی اور جاگتی ہیں، وہ بھی وہ سب کچھ دیکھ سکیں جو میں دیکھتی ہوں۔ زندگی میں چاہے جتنے دشوار نشیب و فراز آئیں، ہار مت مانو۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کام کرو۔ میں ہار نہیں مانوں گی۔ میں جانتی ہوں ایک کامیابی کے پیچھے بہت سی اداس کہانیاں ہوتی ہیں، لہٰذا مجھے آگے بڑھتے رہنا ہوگا۔ بے شک اگر آپ ابھی تک اپنی منزل تک نہیں پہنچیں، یہ بہت اچھا ہے کہ آپ اپنے منتخب کردہ راستے پر چل رہی ہیں۔
Share your feedback