میری بہترین دوست بیمار ہے

میں اس کے جوش و جذبے کو بحال رکھتی ہوں!

آپ کے خیالات (1)

دنیا میں بہت سے لوگ ایسی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں جو انہیں دوسرے بیمار لوگوں سے لگتی ہیں۔ یہ ایک لڑکی کی کہانی ہے۔

میرا نام روز ہے میں 13 سال کی ہوں اور میں جنوبی افریقہ میں رہتی ہوں۔ میری گہری دوست کچھ دیر سے مسلسل کھانس رہی تھی۔ ہر دن جب ہم سکول چل کر جاتیں اسے بہت تکلیف ہوتی۔ اس کی سانس پھولتی تھی اور وہ ہر تھوڑی دیر بعد آرام کے لیے بیٹھ جاتی۔ وہ دن بدن پتلی ہوتی جا رہی تھی۔

میں جانتی تھی کچھ تو غلط تھا۔ لیکن وہ اس کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میں اسے کہتے رہتی کہ وہ کلینک میں نرس کو دکھا دے۔ لیکن وہ کہتی صرف نزلہ ہے اور ٹھیک ہوجائے گا۔

میں سوچتی کہ وہ کسی کو پریشان کرنا نہیں چاہتی۔ لیکن میں بہت زیادہ پریشان تھی

ایک دن ہم گھر سے سکول جارہے تھے اس شدید کھانسی تھی۔ جب اس نے نیچے دیکھا تو اس کے ہاتھ پر خون تھا۔ میں اتنی ڈر گئی کہ چلانا شروع کر دیا۔ اگلے دن اس کی دادی اسے کلینک لے گئی۔

انہوں نے اس کے لیبارٹری ٹیسٹ کئے اور بتایا کہ اسے تپ دق ہے، اس کے پھیپھڑوں میں انتہائی سخت قسم کا انفکشن ہے۔ وہ بہت خوفزدہ تھی۔ میں نے ٹی بی کے بارے میں سن رکھا تھا، میں نے لاکھوں سال میں یہ نہیں سوچا تھا کہ میری سہیلی کو ٹی بی ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر بہت ہی شفیق تھا۔ ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ وہ گھر جا سکتی اور وہاں زیادہ بہتر ہو سکتی ہے: ٹی بی قابل علاج مرض ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کو ہر روز دوا کھانی پڑے گی۔ اگر دوائی روک دی تو ٹی بی ٹھیک نہیں ہوگی اور آپ مزید بیمار ہو سکتی ہیں۔

اس کے بعد میں ایک عرصے تک اپنی دوست کی عیادت نہ کر سکی۔ میں اس کے پاس زیادہ نہیں جا سکتی تھی، اور جب جانا ہوتا حفاظتی ماسک پہن کر جاتی تاکہ جراثیم سانس کے راستے میرے اندر نہ داخل ہوجائیں۔

میں خوفزدہ تھی کہ کہیں مجھے بھی کہیں انفیکشن نہ ہوجائے۔ لیکن اس کی ماں نے مجھے بتایا کہ اگر میں اپنا چہرہ ڈھانک کر رکھوں اور ہر دفعہ عیادت کے بعد احتیاط سے دھو لوں تو میں محفوظ رہ سکتی ہوں۔ دوسرے بچے اس کی عیادت کرنے کے متمنیٰ نہیں تھے۔ لیکن میں جب بھی اسے ملنے جاتی، میں دیکھتی کہ اس چہرے پر ایک خوشگوار مسکراہٹ سی نمودار ہوگئی ہے۔

میں اسے خوش رکھنے اور ہنسانے کی کوشش کرتی۔ میں نے اسے بتایا کہ ایک دن وہ صحت یاب ہو جائے گی اور دوبارہ سکول جانے لگ جائے گی۔

وہ اپنی دوا باقاعدگی سے لیتی اور جب بھی کوئی اسے ملنے جاتا وہ اپنے منہ پر ماسک پہن لیتی ہے۔ ہر جمعہ کو وہ کلینک جاتی ہے اور اپنی دوائی لاتی ہے۔

سیمی ابھی تک گھر میں ہے اور اس کا علاج جاری ہے۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ یہ بیماری ان کی سوچ سے بھی زیادہ وقت لے گی۔ اسے دوائیوں کے خلاف دفاع کا حامل تپ دق جس کی وجہ سے اس کا علاج مشکل ہوتا ہے لیکن اب وہ پہلے سے کچھ بہتر تھی۔ میں اس کے صحت مند ہونے اور سکول دوبارہ شروع کرنے تک کا انتظار نہیں کر سکتی۔ میرا نہیں خیال کہ اب مجھے زیادہ انتظار کرنا ہوگا

Share your feedback

آپ کے خیالات

Amanullah

U

مارچ 30, 2023, 3:32 شام