مجھے میرا راستہ مل گیا
غربت اور محدود مواقع میں رہتے ہوئے بہت سی لڑکیوں نے اپنی منزل پانے کی کوشش کی ہے۔ یہ ایک لڑکی کی کہانی ہے۔
میرا نام مابریدی ہے اور میں 16 سال کی ہوں اور میں جمہوریہ ڈومینیکن کے کیریبین سمندر میں ایک جزیرے کی رہائشی ہوں۔ میرا گاؤں کاباریتے اس دنیا میں ایک جنت کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ دنیا بھر کے تمام لوگ ہمارے ساحل سمندر اور ہماری دنیا کی مشہور لہروں کا نظارہ کرنے آتے ہیں۔ سیاحت کے شعبے میں ملازمتیں اچھی تو ہیں، لیکن کوئی اتنی زیادہ نہیں۔ مال ودولت کی کمی ہمیں ناامید رکھتی ہے۔
میرے والد بھی شراب کے نشئے کے عادی تھے - جیسا کہ وہاں کے کئی لوگ کرتے تھے۔ وہ میری ماں کو مارتا رہتا ہے۔ میں اور میرے بہن بھائی اکثر اس کے غصے سے ڈرتے تھے کہ کہیں وہ ہمیں زخمی نہ کر دے۔
میں نے سکول میں دوست بنانے کی کوشش کی، کیونکہ میں اپنی ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ تعلقات بنانے میں شرم اور ہچکچاہٹ محسوس کرتی۔ میں دوسری لڑکیوں کے ساتھ لڑتی جھگڑتی اور گھر کا غصہ نکالتی۔ میں خود کو پریشانیوں میں جکڑا ہوا محسوس کرتی۔ مجھے کچھ نیا کرنے کی کوئی حمایت حاصل نہیں تھی کیونکہ ہر ایک اس بات سے بہت ڈرتا تھا کہ کچھ غلط نہ ہوجائے۔ مجھے ہمیشہ یہی سننے کو ملتا "مابریدی چپ ہو جاؤ، نہیں مابریدی، مابریدی خاموش رہو"۔
ماں نے اکثر مجھے یہ شکایت کرتے سنا کہ میرے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں ہے، لہذا اس نے مجھے لڑکیوں کے ایک سمر کیمپ میں داخل کرا دیا۔ میں بہت نروس تھی۔ لیکن پہلے ہی دن ہمیں بہت مزا آیا اور بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملا، جیسا کہ ڈرامہ اور بالی وڈ رقص۔ میں نے بہت سی نئی سہیلیاں بنانی شروع کر دیں اور میری مسکان لوٹ آئی! ماری پوسا ڈی آر فاؤنڈیشن نے ہمیں انگریزی بولنا، تیرنا اور خود کھڑا ہونا سکھایا۔ انہوں نے تعلیم مکمل کرنے، کھیلوں میں حصہ لینے اور ایک فعال طرزِ زندگی گزارنے میں ہماری حوصلہ افزائی کی۔
سمر کیمپ ختم ہونے پر یہ پروگرام ختم نہیں ہوا۔ ہم مسلسل ملتے رہے اور نئی باتیں سیکھتے رہے۔ ہم نے سیکھا کہ ہمیں منشیات کے ذریعے اپنی زندگی کو تباہ نہیں کرنا۔ میں نے یہ بھی سیکھا کہ زندگی کے لئے بہت محنت کرنا ہوگی۔
اب میں جانتی ہوں کہ کسی ایسے مرد کے پاس جانے سے جو مجھ پر تشدد کرےگا کے ساتھ جانے کی بجائے میں زندگی میں اور بہت کچھ کر سکتی ہوں۔
والدین کے ساتھ میرے تعلقات بہت بہتر ہوچکے ہیں کیونکہ میں اب خوش اور زیادہ با اعتماد ہو چکی ہوں۔ میرے پاپا (والد) بھی میرے تیراکی کے مقابلے دیکھنے کبھی کبھار آ جاتے ہیں۔ اب وہ مجھے " پانی کی ایک جنگجو عورت " کے نام سے پکارتے ہیں۔ میں اپنے شہر ڈومینیکن کی واحد پتنگ باز لڑکی بن گئی۔ اب جب بھی میں سمندر پر جاتی ہوں تو مجھے بہت خوشی محسوس ہوتی ہے۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میں کبھی اس خواب کی تعبیر پا سکوں گی۔ اب میں سمجھ چکی ہوں کہ پانی کے اندر اور باہر اب میں خود پر اور اپنے جذبات پر قابو پا سکتی ہوں۔
مجھے فخر ہے کہ مجھ میں کافی صلاحیت ہے اور میں دوسری لڑکیوں میں اس کی تلاش میں مدد کر سکتی ہوں۔ جب میں دوسری لڑکیوں کو تیراکی سکھاتی ہوں تو میں انہیں بتاتی ہوں کہ اس بات کو بھول جائیں کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں، چاہے وہ آپ کا مذاق ہی کیوں نہ اڑا رہے ہوں۔ اپنا مستقبل سنوارنے کی صلاحیت ہم میں موجود ہے، وہ چیزیں کرنے کے لیے جن کا ہماری ماؤں کو موقع نہیں ملا۔
Share your feedback