لیکن میرے بھی حقوق ہیں
جنوبی افریقہ میں تقریباً 3.7 ملین یتیم بچے ہیں -ان میں آدھے بچے وہ ہیں جن کے والدین ایڈز سے متعلقہ بیماریوں کی وجہ سے فوت ہوگئے۔ یہ ایک لڑکی کی کہانی ہے۔
میرا نام پریٹی ہے، میں 20 سال کی ہوں اور میں جنوبی افریقہ میں رہتی ہوں۔ جب میں جوان ہوئی تو اپنے چچا چچی کے ساتھ رہتی تھی۔ انہوں نے مجھے یہ یقین کرنے پر مجبور کیا کہ وہ مجھے مارنے اور بدسلوکی کا حق رکھتے ہیں، کیونکہ میں ان کی حقیقی اولاد نہیں تھی اور میں کسی بھی دیگر جگہ پر نہیں جا سکتی تھی۔ میں بری طرح پھنس چکی تھی۔
ماہورای کے ایام میں جب میں اپنی چچی سے سینٹری پیڈز کا سوال کرتی تو وہ کہتیں: اخبار استعمال کرلو۔ خوبصورتی کے لئے جب میں اپنے بال سنوارتی تو وہ کہتیں:" پانی اور سورج کی روشنی ہے..."- یہ انتہائی تکلیف دہ تھا۔
اس کے بعد زندگی مجھ پر تنگ ہو گئی۔ میں بہت دل آزردہ ہوئی۔ رات گئے جب میں گھر کے روزانہ کے مشکل کاموں سے فارغ ہوتی تو مجھے اپنا سکول کا کام کرنے کا موقع ملتا۔
ایک دن اس بارے میں بہت زیادہ سوچنے کے بعد میں اپنے آپ کو حوصلہ دینے کے لئے ایک سماجی کارکن کے پاس چلی گئی جس کے متعلق میں نے اپنی ایک استانی سے سن رکھا تھا۔ میں بہت زیادہ خوفزدہ تھی۔ لیکن مجھے خوشی ہے کہ میں نے ایسا کر لیا۔ اس نے میری زندگی بدل دی۔
جب میں اس کے پاس گئی اور اسے اپنی کہانی سنائی تو میں بہت روئی۔ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور کہا کہ "بچے، کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ آپ کو مارے اور آپ سے برا سلوک کرے۔ " وہ میرے ساتھ میرے گھر گئی اور آخر کار اس نے مجھے میرے سرپرستوں سے دور رہنے کے لئے ایک دوسری جگہ تلاش کرنے میں میری مدد کی۔ وہاں میں اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز کرنے کے قابل ہوئی اور میں مضبوط ہوگئی۔
جب میں اپنے چچا چچی کے پاس تھی تو میں کسی سے مدد مانگتے ہوئے ڈرتی تھی۔ لیکن مجھے خوشی ہے کہ میں نے ایسا کر لیا۔ اب میں خوش ہوں اور خود کو محفوظ سمجھتی ہوں۔ اب میں دوبارہ خود پر فخر محسوس کرتی ہوں۔ میں ایک ایسی لڑکی ہوں جس نے اپنے حقوق کے لئے جنگ لڑی اور اسے جیت لیا۔
Share your feedback