16 سالہ ماں

میری کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی

اے لڑکیو!

میں ہوں خدیجہ اور میں ایک بہت اچھے باپ اور محبت کرنے والی ماں کے ہاں پیدا ہونے والے 8 بچوں میں سے ایک ہوں۔ میرے والد کی نوکری تھی اور اس نے ہم سب کو ایک آرام دہ زندگی دی۔ لیکن جس دن وہ فوت ہو گئے تو میں جس زندگی کو جانتی تھی وہ ختم ہو گئی۔

میرے ملک میں بیوہ کو اپنے خاوند کے گھر میں رہنے کا حق نہیں ہے۔ اس لیے میرے چچاؤں نے ہمیں گھر چھوڑنے پر مجبور کیا اور ہمیں اپنی ماں کے گاؤں میں ایک چھوٹے پلاٹ پر منتقل ہونا پڑا۔ میں ایک ماہ تک سکول نہیں گئی تاکہ اپنے خاندان کی نیا گھر بنانے کے لیے اینٹیں بنانے میں مدد کر سکوں۔ ہماری زندگیاں روزانہ کی بقا کی جنگ لڑنے والی ہو گئیں۔

لیکن قطع نظر اس کے کہ میں کتنی بھوکی یا تھکی ہوئی تھی، میں نے ہمیشہ سکول میں بہت محنت کی۔ میں نے اپنے آپ سے سر جھکا کر رکھنے اور توجہ دینے کا کہا۔ ہر فالتو لمحہ جو مجھے زمینداری اور گھر کی صفائی کے درمیان میسر آیا، میں نے وہ سالانہ امتحان کی تیاری میں وقف کر دیا تاکہ میں ثانوی سکول میں جا سکوں۔ میری محنت رنگ لائی جب میں نے داخلے کا امتحان بڑے ہی اچھے نمبروں سے پاس کر لیا۔ لیکن ہم سکول کی فیس بھرنے کے قابل نہیں تھے۔ میں نے پھر پورا سال انتظار کیا دوبارہ امتحان دینے کے لیےاس امید پر کہ مجھے لڑکیوں کے بورڈبگ سکول کے لیے وظیفہ مل جائے گا اور میں اس میں کامیاب ہو گئی۔

ایک دن میری ہم جماعتوں نے مجھے ساحل سمندر پر جانے کے لیے آمادہ کر لیا۔ تب میری ملاقات ایک بہت ہی اچھے لڑکے سے ہوئی۔ اس دن کے بعد ہم نے بات چیت شروع کر دی اور اس نے مجھے اپنی معشوقہ بننے کا کہا۔ میں مان گئی اور ہم ایک جوڑا بن گئے۔ اس نے مجھے جنسی اختلاط پر اکسایا اور چند ماہ بعد میں حاملہ ہو گئی۔

اس سے پہلے کسی نے بھی میرے ساتھ جنسی موضوع پر بات نہیں کی تھی۔ یہ بہت پریشانی والی بات تھی۔ مجھے کسی حفاظتی تدبیر اور اس کے طریقہ استعمال کا پتہ نہیں تھا، میں نے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے میں اس پر اعتماد کیا۔ یہ معلوم پڑنا کہ میں حاملہ تھی ایک بڑا مشکل امر تھا۔ میری ماں بہت پریشان تھی اور میں بھی۔ میرے ارادے تھے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے حامل حاملہ ونے کا مطلب تھا کہ میں اپنا وظیفہ کھو بیٹھوں گی۔

جب میں نے اپنے ایک لڑکے بچے کو جنم دیا تو میں محبت اور خوشی سے سرشار تھی کہ میں اس دنیا میں ایک نئی زندگی لے کر آئی تھی۔ زندگی پھر بھی مشکل تھی مگر ہم نے گزارہ کر لیا۔ تقریباً ایک سال کے بعد ایک آدمی ہمارے گھر پر آیا -- اور اس نے کہا کہ وہ ایڈز سپورٹ آرگنائزیشن کے لیے کام کرتا ہے جو کہ اکیلی نوجوان ماؤں کی مدد کرتی ہے کہ وہ واپس سکول آ کر تعلیم حاصل کر سکیں۔

اس نے مجھے کہا کہ اس موقع کا اہل ہونے کے لیے مجھے ایک ہم مرتبہ معلم کے طور پر کام کرنا ہو گا اور دوسری لڑکیوں کو اپنی کہانی بتانی ہو گی، تاکہ وہ مجھ سے سیکھ سکیں اور مضبوط بنتے اور بولتے وقت بالکل نہ ڈریں جب کہ وہ کوئی چیز نہیں کرنا چاہتیں۔ میں نے "ہاں!" کہ دیا۔ میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کا موقع ملنے اور اپنے جیسی دیگر لڑکیوں کی مدد کرنے پر بہت شکر گزار تھی۔

اب میرا بیٹا 3 سال کا ہے۔ میرے ثانوی سکول سے گریجویشن کرنے میں صرف 2 سال رہ گئے ہیں۔ میں اتنے برے حالات سے گزر چکی ہوں مگر میری کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ سکول چھوڑنا اور ایک بچہ پیدا کرنا میری زندگی کا صرف ایک باب تھا۔ میں جانتی ہوں کہ اگر میں محنت جاری رکھوں اور کبھی ہتھیار نہ ڈالوں تو ہر رکاوٹ عبور کر سکتی ہوں۔

اگرچہ اتنی جلدی بچہ پیدا کرنے پر لوگ میرے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہوں، مگر میں اپنے آپ پر دوسری لڑکیوں کے لیے ایک قابل تقلید نمونہ بننے میں فخر محسوس کرتی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ میں ان لرکیوں کی حوصلہ افزائی کروں جن کے بھی بچے ہیں کہ وہ واپس سکول جائیں اور دوسری لڑکیوں کی مدد کریں کہ وہ اتنی چھوٹی عمر میں حاملہ نہ ہوں۔

Share your feedback