جب تک آپ اختمامی لکیر تک نہ پہنچ جائیں مت رکیے اے لڑکی!
تو یاد کیجیے کہ کیسے میں نے آپ کو اپنی پچھلی کہانی میں بتایا تھا، مس خود مختار -- حصہ-1 شروع ہوتا ہے اپنے آپ پر بھروسہ کرنے کے ساتھ؟ اگر آپ نے ابھی تک اسے نہیں پڑھا تو اس صفحے کے نچلے حصے میں جائیےاور “You Might Like” پر کلک کیجیے۔
ہمیشہ یہ ہی درحقیقت سچ ہے کہ اپنے آپ پر اعتماد ہی کلید ہے۔ جب سے میں نے مثبت سوچنا شروع کیا ہے، میرے ساتھ اچھی چیزیں ہی ہس رہی ہیں۔
جیسے کہ پرسکون کاروبار کا خیال جو کہ مجھے پچھلے ماہ ہی آیا۔ میری دادی اور میں ہمیشہ ہی اکٹھے بیک کرنا پسند کرتی ہیں، اور جب بھی لوگ ہمیں ملنے آتے تھے تو وہ ہمیشہ ہمارے کیکوں کے بارے میں پوچھتے تھے۔۔ تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے تمام ہمسایوں کے خریدنے کے لیے کیک بیچنا شروع کر دیں۔
شروع میں تو یہ ایک آسان تخیل لگا مگر خود اپنا کاروبار شروع کرنا بالکل بھی آسان نہیں ہے۔ اتنی ساری چیزوں کا دھیان رکھنا ہوتا ہے اور بہت ساری چیزیں غلط ہو جاتی ہیں۔ لیکن مجھے یاد تھا کہ مجھے غلط چیزوں پر توجہ نہیں دینی ہے۔ خود مختار ہونے کے لیے آپ کو یقین کرنا ہوتا ہے کہ زندگی میں آپکے ساتھ کچھ بھی ہو جائے آپ اس سے مضبوط ہوتے ہیں اور کسی وقت بھی شدت کے ساتھ واپس آ سکتے ہیں۔
میں مقامی مارکیٹ میں کیک بیچنے سے شروع کرنا چاہتی تھی اس سے پہلے کہ مجھے اپنی ترکیبیں آزمانے کے لیے اپنا سٹال مل گیا۔ اس لیے میں مقامی بریڈ فروخت کرنے والی لڑکی کے پاس گئی اور اس سے پوچھا کہ کیا میں اس کے سٹال پر اپنے کیک بیچ سکتی تھی۔ اس نے ہاں کہا اور مجھے پہلے پور کے لیے اجزائے ترکیبی خریدنے کے لیے رقم بھی دی۔ میں تو بہت پر جوش تھی۔ میں خود مختار ہونے کے ایک قدم اور نزدیک ہو گئی تھی۔
پھر جب میں گھر جا رہی تھی کہ جا کر بیکنگ کروں تو اچانک میری موٹربائک بند ہو گئی۔ میرا توازن بگڑ گیا اور سارے اجزاء فرش پر گر گئے۔ میں تو تباہ ہو گئی! میں نے بیکر سے وعدہ کیا تھا کہ میں اگلے روز اس کے لیے کیک لے کر آؤں گی، مگر اب میرے پاس اجزاء نہیں تھے اور نہ رقم تھی مزید خریدنے کے لیے۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ میں کیا کروں۔ میں تو اسے ترک کر دینا چاہتی تھی۔ زندگی اتنی مشکل کیوں ہو گئی تھی؟
جب کہ میں وہاں کھڑی اپنی خودمختاری کے خوابوں کو فرش پر بکھرا دیکھ رہی تھی تو میں نے اپنے سر میں اپنی دادی کی آواز سنی۔ "منفی ذہن کبھی بھی تمہیں مثبت زندگی نہیں دے گا" تو پھر میں نے منفیت کو پرے پھینکا اور اپنے آپ کو کہنا شروع کیا کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، او کے۔ اس لمحے میں نے ہتھیار نہ ڈالنے اور لچکدار بننے کا فیصلہ کیا۔
اس سب سے مجھے سبق ملا کہ خود مختاری کا سفر ایک سیدھی سڑک نہیں ہے۔ نشیب و فراز تو ہوں گے مگر اہم بات یہ ہے کہ آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔
جاننا چاہیں گے کہ میں کس شدومد سے واپس آئی؟ جاننے کے لیے نیچے دیے گئے حصہ -3 کو پڑھیے۔۔۔
Share your feedback